6 اپریل 2021 - 16:14
ایران چین معاہدے کے حوالے سے چند اہم سوالات اور ان کے جوابات

ایک سوال یہی ادھر ادھر سے سنائی دے رہا ہے کہ اگر کوئی خاص رعایت نہیں دی گئی ہے تو دستاویز کا متن شائع کیوں نہیں کیا جارہا ہے اور رازداری کس چیز کی ہے؟

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ گزشتہ سے پیوستہ؛
سوال نمبر 2: کیا ایران-چین تعاون کی دستاویز کسی تیسرے ملک کے خلاف ہے؟

ایک اہم سوال جو وسیع سطح پر پوچھا جارہا ہے یہ ہے کہ "کیا یہ دستاویز کسی تیسرے ملک کی مخالفت کی غرض سے تیار کی گئی ہے؟"۔ اسلامی جمہوریہ کی وزارت خارجہ کے حقائق نامے میں زور دے کر کہا گیا ہے کہ "یہ دستاویز امن و آشتی اور علاقائی اور بین الاقوامی استحکام اور ترقی کی غرض سے تدوین ہوئی ہے چنانچہ یہ کسی بھی تیسرے فریق کے خلاف یا کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے لئے نہیں ہے"۔

 
سوال نمبر 3: اعداد و شمار یا ایک فریق کو اضافی رعایتیں دینے کی کس حد تک حقیقت ہے؟

ایران اور چین کے درمیان جامع تعاون پروگرام پر دستخطوں سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی، مختلف قسم کے اعداد و شمار پیش کئے جارہے ہیں اور کہا جارہا ہے کہ اس پروگرام کے تحت ایک فریق کو اضافی رعایتیں دینے کا منصوبہ ہے اور پوچھا جارہا ہے کہ کیا سری لنکا کا تجربہ نہیں دہرایا جارہا ہے؟

اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے مشرقی ایشیا اور بحرالکاہل کے شعبے کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر رضا زبیب نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے اپنے ٹویٹر پیج پر لکھا: "یہ سوالات تعاون کے دو فریقی پروگرام کو ایک قرارداد سمجھ کر، اٹھائے جارہے ہیں۔ جبکہ یہ دستاویز اصولی طور پر جوہر کے لحاظ سے بھی اور حتی کہ شکل کے لحاظ سے بھی قرارداد یا معاہدہ نہیں ہے بلکہ ایک طویل المدت دائرے میں ایک نقشۂ راہ ہے۔ جو تعاون غیرتدوین شدہ صورت میں، دو ملکوں کے درمیان جاری ہے، اس کو ایک طویل المدت تناظر میں استحکام اور تقویت دی گئی ہے"۔

انھوں نے سری لنکا کے تجربے کے دہراؤ کے اندیشوں کے بارے میں لکھا: "اصولی طور پر کسی قسم کی رعایتوں کا تبادلہ نہیں ہؤا ہے، چنانچہ اندیشے سب بےجا ہیں اور یہ جو مغربی طاقتیں "قرضوں کا جال" (Debt Trap) قرار دے رہے اور سری لنکا کی مثال دے رہے ہیں، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ اس دستاویز کی بنیاد بین الاقوامی سطح پر دو ملکوں کی یکسان پالیسیاں اور معاشی تعاون کے سلسلے میں دو طرفہ مفادات ہیں"۔

وزارت خارجہ کے حقائق نامے میں بھی کہا گیا ہے کہ اس دستاویز میں کہیں بھی، اقتصادی، سیاسی، ثقافتی اور تزویراتی تعاون کے امکانات کے سلسلے میں کسی کمیت و مقدار یا تعداد کا تذکرہ نہیں ہؤا ہے چنانچہ اس دستاویز میں سرمایہ کاری اور مالی وسائل وغیرہ کے بارے میں کوئی خاص اعداد و شمار شامل نہیں ہے۔

یہ دستاویز در حقیقت تعاون کے سلسلے میں ایک وسیع تر سانچہ ہے اور اعداد و شمار بعد کے مراحل میں - جب یہ دستاویز ایران اور چین کے مختلف اداروں، شعبوں کے متعینہ منصوبوں میں تبدیل ہوگی - شامل کئے جائیں گے اور کاغذ پر آئیں گے۔ چنانچہ اب، جبکہ کوئی بھی منصوبہ یا پراجیکٹ ہی نہیں ہے، اعداد و ارقام کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

 
سوال نمبر 4: دستاویز کا سرکاری متن کیوں شائع نہیں کیا جا رہا ہے؟

ایک سوال یہی ادھر ادھر سے سنائی دے رہا ہے کہ اگر کوئی خاص رعایت نہیں دی گئی ہے تو دستاویز کا متن شائع کیوں نہیں کیا جارہا ہے اور رازداری کس چیز کی ہے؟ تو جواب یہ ہے کہ معاہدوں اور سمجھوتوں کے متن کی اشاعت قانونی لحاظ سے لازمی ہے لیکن غیر لازمی (Non-bligatory) دستاویزات جن کی پابندی لازمی نہ ہو، کی اشاعت بہت عام نہیں ہے۔ نیز مغرب کی ظالمانہ اور دہشت گردانہ پابندیوں کا بھی تقاضا ہے کہ دستاویز کے تمام مندرجات کی اشاعت سے پرہیز کیا جائے۔

 
سوال نمبر 5: کیا ایران-چین جامع تعاون پروگرام کے لئے پارلیمان کی منظوری ضروری ہے؟

اسلامی جمہوریہ کے آئین کی دفعہ 77 کے مطابق بین الاقوامی میثاق ناموں، مکتوبہ مسودات، قراردادوں اور سمجھوتوں کا مجلس شورائے اسلامی (پارلیمان) سے منظور ہونا ضروری ہے؛ لیکن جیسا کہ مشرقی ایشیا اور بحرالکاہل کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر رضا زبیب نے واضح کیا، ایران اور چین کے تعاون کی دستاویز، کسی قرارداد، معاہدے یا کنونشن کی طرح نہیں ہے بلکہ طویل المدت تعلقات کے لئے محض ایک دائرہ کار اور ایک نقشۂ راہ ہے۔

 
سوال نمبر 6: کیا ایران پہلا ملک ہے جو چین کے ساتھ اس طرح کی سند پر دستخط کر رہا ہے؟

مغرب اور مغرب نوازوں کی طرف بھی اور کچھ علاقائی حاسدوں اور بدخواہوں کی طرف سے ایران-چین تعاون دستاویز پر دستخطوں پر رد عمل اس قدر شدید تھا کہ اس کی وجہ سے یہ سوال سامنے آیا کہ کیا ایران پہلا ملک ہے جس نے اس قسم کی دستاویز پر دستخط کئے ہیں؟ حالانکہ چین نے اس سے پہلے کئی ممالک کے ساتھ اسٹراٹیجک یا تجارتی سمجھوتوں پر دستخط کئے ہیں۔ مثال کے طور پر سنہ 2017ء میں چین اور سعودی عرب نے 65 ارب ڈالر کے ایک معاہدے پر دستخط کئے جو 15 قراردادوں پر مشتمل تھا۔ چین اور 14 ایشیائی ممالک نے 2020ء میں آزاد تجارت کے معاہدے پر دستخط کئے۔ یہ معاہدہ (Regional Comprehensive Economic Partnership [RCEP]) کے نام سے مشہور ہؤا۔ چین اور پاکستان نے تزویراتی شراکت داری کے دیرینہ معاہدے کو سنہ 2005ء میں ترقی دی۔

نیز چین اور یورپی اتحاد نے دسمبر 2020ء میں جامع تجارتی سمجھوتے پر دستخط کئے جس کے لئے ہونے والے مذاکرات کا آغاز سنہ 2014ء سے ہؤا تھا۔ چین میں یورپی اتحاد (سوا برطانیہ کے) کی مجموعی سرمایہ کاری 150 ارب یورو اور یورپی ممالک میں چین کی سرمایہ کار 113 ارب یورو تک پہنچتی ہے۔ گذشتہ 10 برسوں کے دوران چین میں یورپی ممالک کی سرمایہ کاری ہر سال 7 ارب یورو اور یورپ میں چین کی سرمایہ کاری  5/6 ارب یورو تک پہنچی ہے۔

سنہ 2010ء میں چین کے وزیر اعظم وین جیاباؤ (Wen Jiabao) نے ترکی کا دورہ کیا اور انقرہ اور بیجنگ نے باہمی سمجھوتوں کی سطح تزویراتی تعاون کی حد تک بڑھانے کے سلسلے میں معاہدے پر دستخط کئے۔ اس معاہدے کے بعد، ترکی کے اس وقت کے وزیر اعظم رجب طیب ایردوان نے کہا کہ دو ملکوں کے تعلقات، اسٹراٹجک تعلقات کی سطح پر پہنچ چکے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تالیف: فرحت حسین مہدوی